مسلم اکثریت کی آبادی کا چھوٹا سا قصبہ کیرانہ جہاں برسوں سے کسی قسم کی بھی واردات نہیں ہوئی ۔وہ اتنی اہمیت اختیار کئے ہوئے ہے کہ ایک ہفتہ کے بعد بھی ایک بڑے اخبار کی تین سرخیاں اور انکے تحت خبر کا حاصل صرف یہ ہے کہ کچھ بھی نہیں ہوا ۔اتر پردیش سے 5سادھو سنتوں کی ایک ٹیم اسوقت کیرانہ کا دورہ کررہی ہے اور اس ماحول میں کررہی ہے کہ اس طبقہ کے ایک سادھوی ’’مسلم مکت بھارت ‘‘بنانے کی مہم چلارہی ہیں ۔
کیرانہ بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست کا شکار ہوا ۔سادھو سنتوں کا بیان
کیرانہ واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ نہیں دیا جا نا چاہئے ۔وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ
کیرانہ معاملہ کو بلاوجہ طول دیا جارہا ہے ۔کرشنا پٹیل صدر اپنا دل
ان تینوں میں نہ مسلم علما ہیں نہ مسلم دانشور نہ سیاست داں ۔وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ جو الہ آبا دمیں اس دن موجود تھے جب انکی پارٹی کے صدر امت شاہ نے اپنی پوری آواز کے ساتھ کہا تھا کہ ہم کیرانہ کو کشمیر نہیں بننے دیں گے ۔اور پھر وہ سب کیا تھا جسکے نتیجے میں پورا ملک لرز گیا تھا اور محسوس ہونے لگا تھا کہ الہ آباد سے فرصت کے بعدیہ ٹولی کیرانہ ہی جائے گی ۔شکر ہے پاک پروردگار کا کہ سب سے پہلے وہاں این ڈی ٹی وی کے رپورٹر پہنچ گئے اور اس ساز ش کے مکھیا حکم سنگھ کو گھیر لیا جو جواب دینے کے بجائے نہ جانے کونسی زبان بولنے لگے ۔
اور اسکے بعد سے وہ سب ہو رہا ہے جو نہ ہونا چاہئے ۔یعنی بی جے پی کے شاطروں کی ٹیم دورہ کررہی ہے ۔تازہ خبروں کے مطابق فوٹو کھینچنے کے لیے آباد مکانوں میں اس دن تالے بھی ڈال دیئے گئے تھے کہ شری حکم سنگھ کی گنتی پوری ہو جائے ۔لیکن کیرانہ کے ہوش مند ہندو ؤں اور مسلمانوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر ایسی کوئی بات نہیں ہونے دی جو حکم سنگھ کو سچا ثابت کردے ۔اسکے بعد اپنے کہنے کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی پارٹی بی جے پی کے صدر کو کتنا ذلیل ہونا پڑا اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ اب وہ سانس بھی نہیں لے رہے ہیں ۔
ایک بات جسکا کوئی تعلق بی جے پی یا مودی سرکار سے نہیں ہے وہ یہ ہے کہ کیرانہ شہرت کی حد تک 80فیصدی مسلمانوں کی آبادی کا قصبہ ہے ۔سنا ہے کہ شاملی کی آبادی بھی ایسی ہی ہے ۔ہم پورے ملک کی بات اگر نہ بھی کر کے صرف اتر پردیش کی بات کریں تو کوئی بڑے سے بڑا سیاست داں ہندو ہو یامسلمان یہ نہیں بتا سکتا کہ ایسے کس قصبہ یا تحصیل یا شہر میں جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ سے زیادہ اور ہندو ؤں کی کم ہو وہاں کوئی سرکاری فیکٹری یا کارخانہ لگاہو۔؟
ہم سنبھل کے رہنے والے ہیں جسکی آبادی اب تین لاکھ سے زیادہ ہے اور مسلمان شاید 70فیصد ہیں ۔اتنی بڑی آبادی میں کوئی کارخانہ یا فیکٹر ی تو کیا لگتی اسے ستر برس کی آزادی کے بعد بھی ریلوے لائن سے نہیں جوڑا گیا ۔جسکے لئے سنبھل سے گجرولہ تک صرف چالیس کلو میٹر کے قریب ریلوے لائن بچھانا تھی ۔اس کی حالت یہ ہے کہ آج بھی ایک گدھا گاڑی جیسے 5ڈبے اور ایک انجن مراد آباد کا کوڑا سنبھل اور سنبھل کا کوڑا مراد آباد لے جانے کے لیے دن میں دو مرتبہ آتے جاتے ہیں اور چونکہ سنبھل میں انجن کے گھوسنے کی جگہ نہیں ہے ۔اس لئے سیدھا آتا ہے اورانجن الٹا واپس جاتا ہے مرادآباد سے ملا ہوا امروہہ بھی ہے اور حسن پور بھی ۔ان سے بھی یہی غلطی ہوگئی ہے کہ آبادی مسلمانوں کی زیادہ ہے ۔
ان شہروں اور قصبوں میں ہندو بھی گھر چھوڑ کر دوسرے شہر وں میں گئے ہیں اور مسلمان بھی ۔سنبھل میں زمینداری ختم ہونے کے بعد نہ جانے کتنے مسلمان احمدآباد کے جے بھارت مل میں کام کرتے رہے ہیں اور 1969میں جب کانگریس کے مادھو سنگھ سولنکی وزیر اعلیٰ تھے ۔اسوقت مل کے ہندو مسلمان کاریگر وں میں جھگڑا ہوا جسے جن سنگھ گو د میں بھر کر شہر میں لے آئی اور پھر پورے احمدآباد میں مسلمانو ں کے خون سے ہولی کھیلی گئی ۔اور اس میں سنبھل کے بھی کئی مسلمان شہید ہوگئے ۔اسکے بعد وہاں کا سہارا بھی ختم ہوگیا ۔لیکن سنبھل ہوامروہہ ہو حسن پور ہو ۔بجنور ہو یا رام پور یا کیرانہ تھانہ بھون وغیرہ جہاں بھی مسلم آبادی کی اکثریت ہے وہاں سرکاری روزگار نہیں ہے ۔وہاں ایسی ہی ویرانی ہے ۔بعض لوگ جو بچوں کی تعلیم کی وجہ سے یا تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے قصبہ یا شہر چھوڑ نے پر مجبور ہوئے وہ صرف اس لئے کہ جب واپس نہیں جانا ہے تو مکان فروخت کردو۔ہم 1964میں سنبھل سے آئے تھے اور ایک مکان صرف دس سال پہلے تک یہی سوچ کر روک رکھا تھا کہ کیا خبر بچوں میں کوئی سنبھل جانے کا فیصلہ کرلے ۔اور جب یہ طے ہوگیا کہ کوئی نہیں جائے گا تو اسکا فیصلہ کیا ۔
شری راجناتھ سنگھ لکھنؤ سے ممبر پارلیمنٹ ہیں ۔اسلئے وہ برابر لکھنؤ آتے رہتے ہیں ۔اس بار آئیں تو کوئی اتنا کرم کرلے کہ انہیں دیوہ اور کرسی کے درمیان سڑک کے کنارے مسلمان زمینداروں کے دو بہت بڑے بڑے گاؤں کھیولی اور متئی لے جاکر دکھا دے جہاں بڑی بڑی حویلیاں غیر آباد پڑی ہیں انہیں نہ ہندو ؤں نے مار کر بھگایا ہے اور نہ مسلمانوں نے اور بات صرف ان دو کی ہی نہیں ہر اس جگہ جہاں زمیندار ی ختم ہوگئی اور روزگار کے لئے قریب کے یا دور کے کسی بڑے شہر میں وہاں کے لوگ جاسکے ۔وہ شروع میں تو آئے گئے اور لوگوں کو یقین دلایا کہ رشتہ نہیں توڑیں گے ۔پھر ایسے گئے اب نہ انہیں خبر ہے کہ جنہیں چھوڑ آئے تھے ان میں کون زندہ ہے ۔اور جو آئے تھے ان میں کون مرگیا ؟
اب اترپردیش حکومت کو چاہئے کہ وہ کیرانہ تھیٹر کو بند کرے ۔ہر دن ایک ٹیم ایسے ہی جیسے فساد کے بعدٹیمیں جاتی ہیں ۔اور ماحول کو ٹھنڈا نہیں ہونے دیتیں ۔وہی کیرانہ میں ہورہا ہے ۔ایک بات جب مان لی گئی کہ جو کوئی ہندو یا مسلمان کیرانہ چھوڑ کر گیا ہے وہ صرف اس لئے کہ وہ روکھی سوکھی کے بجائے گھی تر نوالے کھانا چاہتا تھا اور اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں بھیج کر برباد کرنے کے بجائے کچھ بنانا چاہتا تھا ۔اس نے اگر اپنا عالی شان مکان فروخت نہیں کیا تو اس لئے کہ اتنا قیمتی مکان خریدکر رہنے والا وہاں ہے ہی کون ؟ وہ بھی مسلمان زمیندار وں کی حویلیوں کی طرح ویران ہیں ہو سکتا ہے کسی کی لاٹری کھل جائے تو وہ کوٹھی خریدلے ۔اور مالک مکان کے مرنے کے بعد بڑے بڑے عہدوں پر حکومت کرنے والے اب باپ دادی کی بستی میں قدم رکھنا بھی نہیں چاہتے ۔ 2014 کے الیکشن کی مہم سے لیکر اب تک ہر دن اور ہر منٹ میں شری نریندر مودی وکاس اور وکاس کی ہی رٹ لگاتے ہیں ۔اور انکی ٹیم ایسی آبادی کی تلاش میں گھوم ر ہی ہے جہاں وہ کچھ ایسا کرانے میں کامیاب ہوجائے کہ مسلمان ملائم سنگھ سے ناراض ہوجائے اور 2014کی طرح مسلمان مسلمانوں کو مل جائیں ۔اور موریہ صاحب 265سیٹیں امت شاہ کو دیدیں مسلمانوں کے لیے یہ بڑا نازک وقت ہے خدا انہیں عقل سلیم دے اور وہ کوئی ایسا فیصلہ کریں کہ بعد میں پانچ برس تک رونا نہ پڑے ۔
سنبھل امروہہ حسن پور پہلے یہ ایک پارلیمانی سیٹ تھی جس سے مولانا حفظ الرحمان مولانا اسحاق سنبھلی ملائم سنگھ انکے بھائی پروفیسر بلرام سنگھ آچاریہ کرپلانی اور ڈاکٹر شفیق برق کامیاب ہوچکے ۔لیکن سنبھل کو گجرولہ سے کوئی نہ جوڑ سکا ۔جسکی وجہ سے سنبھل آج بھی پسماندہ ہے اور یہی ہر اس بستی کا حال ہے جہاں مسلمان زیادہ ہیں ۔اب امت شاہ اپنے فارمولہ پر انہیں کم کردیں تو شاید ان پر بھی حکومت کی نظر عنایت ہو جائے ؟ یا آبادی کا تبادلہ کردیا جائے کہ بستی یا ہندوؤں کی ہو یا مسلمانوں کی ۔جیسے کھیتوں کی چک بندی کی گئی ہے ۔اس طرح آبادی کی بھی چک بندی کردی جائے ۔تو یہ جھگڑا ہی نہ رہے کہ کون کشمیر ہوگیا اور کون گجرات ہوگیا ۔یہ کا م حکومتوں کے کرنے کا ہے ۔ہم تو صرف تجویز پیش کررہے ہیں ۔